سرمایہ کاری،برآمدات میں اضافہ،آمدنی اور روزگار کے مواقع کی فراہمی اور کیپیٹل مارکیٹ کی بہتری نگران حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے ،ڈاکٹر شمشاد اختر

0

نگران وفاقی وزیرخزانہ ، محصولات و اقتصادی امور ڈاکٹر شمشاداختر نے کہا ہے کہ مالیاتی ڈسپلن ، سرمایہ کاری، مسابقت ، توانائی ، برآمدات میں اضافہ، آمدنی اور روزگار کے مواقع کی فراہمی اور کیپیٹل مارکیٹ کی بہتری نگران حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کے باوجود استحکام کے اقدامات اور اصلاحات کے عمل کے ذریعے مالیاتی اور بیرونی شعبے کے استحکام کو یقینی بنایا گیا ہے،سمگلنگ، غیر قانونی ٹرانزیکشنز اور ایکس چینج کمپنیوں کے خلاف کاررائیوں کے نتیجے میں 5 ستمبر کے بعد ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں 9 فیصد کا اضافہ ہوا ہے

، سٹاف لیول معاہدے کی منظوری کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کی 700 ملین ڈالر کی قسط موصول ہو گئی ، توقع ہے پاکستان کو دوطرفہ اور کثیر الجہتی شراکتداروں سے 4.5 ارب ڈالر کی معاونت موصول ہو گی۔بدھ کو آئی سی ایم اے کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہا کہ مالی سال 23-2024 پاکستان کی معیشت کے لئے کئی چیلنجوں کے ساتھ شروع ہوا۔

پاکستان کی معیشت کو گزشتہ سال آنے والے سیلاب کے نقصانات اور تباہ کاریوں کا سامنا رہا، زرمبادلہ اور ترسیلات زر کے مسائل کی وجہ سے مالی اور حسابات جاریہ کے کھاتوں کےخسارے جیسے مسائل ہمیں درپیش تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یوکرائن جیسے مسائل کی وجہ سے بین الاقوامی منظر نامہ بھی موافق نہیں تھا جس سے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی متاثر ہوا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ان مسائل کی وجہ سے پاکستان کے لئے مالی گنجائش کم ہوئی جس سے سماجی اور ترقیاتی شعبے پر اثرات مرتب ہوئے اور ہماری نمو متاثر ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ان مسائل سے نمٹنے کےلئے ثابت قدمی کے ساتھ اقدامات اٹھائے گئے ۔ کلی معیشت کے استحکام ، مارکیٹ اور کاروباری برادری کے اعتماد میں اضافہ اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے اقدامات کئے گئے۔ مالیاتی ڈسپلن ، سرمایہ کاری، مسابقت ، توانائی ، برآمدات میں اضافہ، آمدنی اور روزگار کے مواقع کی فراہمی اور کیپیٹل مارکیٹ کی بہتری نگران حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل رہی۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ کووڈ۔19 کی عالمگیر وبا کے جھٹکوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کے لئے بحران پیداہوئے۔ مالی سال 2022 میں حکومت نے توسیع پر مبنی مالیاتی پالیسی پر عمل کیا جس سے نمو کی شرح 6.1 فیصد ہوگئی تاہم اس کے نتیجے میں مالیاتی اور حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارے میں اضافہ ہوا۔ مالی سال 2023 میں اقتصادی نمو کی شرح 0.29 فیصد ہو گئی جس کی وجہ سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا۔ ان مشکل حالات کی وجہ سے حکومت کے لئے ضروری تھا کہ وہ اقتصادی صورتحال کے مطابق اقدامات کرے ، اس کے لئے اقتصادی بحالی کا جامع منصوبہ بنایا گیا تاکہ ملکی معیشت کو اٹھایا جا سکے۔

حکومت نے ٹیکس کی بنیاد میں وسعت اور ریونیو میں اضافہ کےلئے اقدامات کئے۔ ریٹیل ،زراعت ، ریئل سٹیٹ اور منقولہ اثاثوں پر ٹیکس کو اصلاحات میں شامل کیاگیا۔ ٹیکس استثنیٰ کو طب اور سپلائی چین جیسی ضروری شعبوں تک محدود کرنا ، کفایت شعاری کے اقدامات ، سبسڈیز اور گرانٹس کا جائزہ ، ترقیاتی منصوبوں پر نظرثانی ، سہ ماہی بجٹ کے اہداف پر عملدرآمد، فائیوایز فریم ورک ، معیشت کو دستاویزی بنانے کےلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کااستعمال سرکاری کاروباری اداروں میں اصلاحات ، ٹریژری سنگل اکائونٹ، کیپٹل مارکیٹ، برآمدات میں اضافہ، آئی ٹی اور زرعی شعبے کی برآمدات کے فروغ سمیت کئی شعبے ہیں جن میں اصلاحات کے ذریعے بہتری لانے کے عمل کا آغاز کردیاگیا ہے۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ نجکاری کمیشن منتخب اداروں کی نجکاری کے عمل کو آگےبڑھائے گا۔ یہ عمل شفاف طریقے سے آگے بڑھایا جارہا ہے۔ ڈسکوز اور پی آئی اے کی نجکاری کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کے باوجود استحکام کے اقدامات اور اصلاحات کے عمل کے ذریعے مالیاتی اور بیرونی شعبے کے استحکام کو یقینی بنایا گیا ہے۔

مالی سال 2023 میں مالیاتی خسارہ کو جی ڈی پی کے7.7 فیصد کی سطح پر لایا گیا جو مالی سال 2022 میں 7.9 فیصد کی سطح پر تھا، مالی سال 2023 میں حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ 2.2 ارب ڈالر تک محدود کیاگیا جو مالی سا 2022 میں 17.5 ارب ڈالر تھا۔ مالی سال 2023 میں تجارتی خسارہ میں 38.7 فیصد کی کمی ہوئی جبکہ مالی سال 2022 میں اس میں 36.4 فیصد کی نمو ریکارڈکی گئی تھی۔

ایک سوال پر وزیر خزانہ نے کہاکہ نگران حکومت نے مشکل حالات میں ذمہ داریاں سنبھالیں، معیشت کا مکمل احیائے نو ایک مشکل عمل ہے اور اس کے لئے احتیاط سے مرتب کردہ اقتصادی منصوبہ بندی،پالیسیوں میں تسلسل اور بیرونی استحکام ضروری ہے۔ حکومت موجودہ مشکل حالات اور چیلنجوں سے بخوبی آگاہ ہے اور ان مسائل سے نمٹنے کے لئے بروقت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جاری مالی سال میں کپاس کی پیداوار میں 127 فیصد کی نمایاں نمو ریکارڈکی گئی، چاول کی پیداوار میں 27.8 فیصد کی نمو ہوئی۔ 15 ستمبر تک جننگ فیکٹریوں میں 3.93 ملین گانٹھوں کی آمد ریکارڈکی گئی جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 2.19 ملین گانٹھیں تھی۔ جولائی سے ستمبر 2024 تک کی مدت میں زرعی شعبے کو 499.3ارب روپے کےقرضہ جات فراہم کئے گئے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 30.1 فیصد زیادہ ہے۔ اگست میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 2.5 فیصد کی نمو ہوئی۔

مینوفیکچرنگ شعبے کی بہتری کے لئے درآمدات پر پابندیوں کو بتدریج ہٹایاگیا۔ لیٹرآف کریڈٹ کی کلیئرنس کاعمل شروع کیاگیا جبکہ ڈالر میں لیکویڈٹی کی شرح کو بڑھا دیاگیا۔ جولائی سے ستمبر تک کی مدت میں سیمنٹ کی کھپت میں 23.4 فیصد کی نمو ہوئی۔ کھادو ں کی پیداوار میں اضافہ کی شرح 2.8 فیصد ریکارڈکی گئی ۔ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ریونیو کے شعبے میں بہترین کارکردگی دیکھنے میں آئی جس کی وجہ سے 417 ارب روپے کا پرائمری سرپلس حاصل ہوا جو مجموعی قومی پیداوار کا 0.4 فیصد ہے۔

آئی ایم ایف کے پروگرا م کے تحت یہ ہدف 87 ارب روپے تھا۔ جولائی سے اکتوبر تک کی مدت میں ایف بی آر نے 2748 ارب روپے کی محصولات اکٹھا کیں جو27.3 فیصد کی نمو کی عکاسی کررہا ہے۔ مالی سال کے پہلے 4 ماہ کے لئے حکومت نے 2682 ارب روپے کاہدف مقرر کیاتھا۔ نان ٹیکس ریونیو میں پہلی سہ ماہی کے دوران 100 فیصد سے زیادہ کا ریونیو حاصل ہوا ہے۔ پٹرولیم لیوی کی مد میں وصولیوں میں اضافہ ہوا جبکہ سرکاری کاروباری اداروں کے منافع میں بھی اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا۔

انہوں نے کہا کہ پہلی سہ ماہی میں مالیاتی خسارہ کو جی ڈی پی کے 0.9 فیصد کی سطح پر لایاگیا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ایک فیصد تھا۔ سمگلنگ، غیر قانونی ٹرانزیکشنز اور ایکس چینج کمپنیوں کے خلاف کاررائیوں کے نتیجے میں 5 ستمبر کے بعد ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں 9 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ 0.95 ارب ڈالر ریکارڈکیاگیا جو تجارتی توازن میں بہتری کی عکاسی کررہا ہے۔

تجارتی خسارہ میں مجموعی طورپر 99.4 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جولائی سے اکتوبر تک کی مدت میں صارفین کے لئے قیمتوں کا اشاریہ 28.5 فیصد ریکارڈکیاگیا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 23.5 فیصد تھا۔ انہوں نے کہا کہ کیپٹل مارکیٹ کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ کیپٹیل مارکیٹ میں تیزی سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کی عکاسی ہو رہی ہے۔

کے ایس سی ہنڈرڈ انڈکس 60ہزار کی حد کو عبور کر چکا ہے۔ آئی ایم ایف سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ پہلا جائزہ کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف سٹاف لیول معاہدے پر متفق ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کا انتظامی بورڈ بہت جلد اس کی منظوری دے گا۔ منظوری کے بعد پاکستان کو 700 ملین ڈالر کی قسط موصول ہوگی۔ حکومت پاکستان کو توقع ہے کہ اس کے لئے پاکستان کو دوطرفہ اور کثیر الجہتی شراکتداروں سے 4.5 ارب ڈالر کی معاونت موصول ہو گی۔

حکومت کو توقع ہے کہ ان ذرائع سے دوسری سہ ماہی کے دوران پاکستان کو 1.6 ارب ڈالر کی معاونت ملے گی۔ ایک سوال پر وزیرخزانہ نے کہا کہ عالمگیریت کے جدید دور اور انڈسٹریلائزڈمنڈیوں کی قیمت سے نہ صرف اندرونی بلکہ عالمی عوامل سے بھی متاثر ہو تی ہے۔ خوراک اور زراعت میں پاکستان کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے۔ اس لئے سپلائی میں رکاوٹوں کی وجہ سےپاکستان پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.