پاکستان میں انشورنس کی صنعت کو وسیع البنیاد نمو کی ضرورت ہے، ڈاکٹر شمشاد اختر کا تقریب سے خطاب
وفاقی وزیر خزانہ، محصولات و اقتصادی امور ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ پاکستان میں انشورنس کی صنعت کو وسیع البنیاد نمو کی ضرورت ہے، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان(ایس ای سی پی) کو انشورنس شعبے کی نمو کےلئے پالیسی مرتب کرنا چاہئے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے زیر اہتمام تقریب سے زوم کے ذریعے اپنے خطاب میں کیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ انشورنس کے شعبے کو آفات سے نمٹنے کے مالیاتی مصنوعات متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ دبئی میں کوپ 28 کانفرنس کا بھی یہ ایک اہم موضوع رہا ہے، ایس ای سی پی کو اس ضمن میں ضابطے مرتب کرنا چاہئیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ انشورنس ایک ایسا شعبہ ہے جو ملکی معیشت کی نمو اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی ڈیبٹ اور کیپٹل مارکیٹ کی ترقی میں بھی انشورنس کا شعبہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں کیپٹل مارکیٹ اور بینک فعال اشتراک کار کو فروغ دے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی و مقامی سطح پر خطرات کے تناظر میں انشورنس کے شعبے کا کردار بڑھ رہا ہے۔ اب ہر فرد اور ہر کاروبار کو انشورنس کے ذریعے تحفظ حاصل کرنا چاہئے کیونکہ عالمی سطح پر بھی بڑے پیمانے پر معاشی غیر یقینی بڑھ رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی سطح پر انشورنس کمپنیوں کے اثاثوں کی مالیت 1100 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ پاکستان میں انشورنس اثر ونفوذ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ بھارت میں یہ شرح 3.76 اور سری لنکا میں 1.25 فیصد ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں انشورنس انڈسٹری کو وسیع البنیاد نمو حاصل ہو۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ انشورنس و نجی شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی بالخصوص مصنوعی ذہانت کو بروکار لانے کےلئے اقدامات کرے۔ چیئرمین ایس ای سی پی عاقب سعید نے اس موقع پر کہا کہ کارپوریشن نے انشورنس کے شعبے کےلئے پانچ سالہ سٹرٹیجک پلان متعارف کرا دیا ہے۔ پانچ سالہ منصوبے کے تحت 2028 تک پاکستان کی انشورنس انڈسٹری اپنے آپ کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرے گی۔