کوئلے کی قیمت ریکارڈ سطح پر، سیمنٹ کی صنعت دباؤ کا شکار
عالمی مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت میں مسلسل اضافہ پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری کو بری طرح متاثر کررہا ہے جو پیداواری لاگت کے سخت دباؤ سے نبرد آزما ہے۔
انڈسٹری ماہرین کے مطابق پاکستان میں سیمنٹ انڈسٹری کے لیے سالانہ 8 ملیں ٹن کوئلہ درآمد کیا جاتا ہے جس میں سیمنٹ کی پیداواری صلاحیت موجودہ 70 ملین ٹن سے بڑھا کر 23-2022 تک 100 ملین ٹن تک لانے کی صورت میں مزید 4 ملین ٹن درآمدات کا اضافہ ہوگا۔
ماہرین کے مطابق کوئلے کی قیمت ریکارڈ بلند سطح پر ہے اور گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران کوئلے کی قیمت میں چار گنا اضافہ ہوا اور کوئلے کی ایف او بی قیمت 55ڈالر فی ٹن سے بڑھ کر اکتوبر 2021تک224 ڈالر فی ٹن کی سطح پر آچکی ہے جس سے سیمنٹ انڈسٹری کی پیداواری لاگت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ جولائی 2020 سے اکتوبر 2021 کے دوران ساؤتھ افریقہ سے پاکستان تک سمندری کرائے 13 ڈالر سے بڑھ کر 30ڈالر فی ٹن کی سطح پر آچکے ہیں۔
روپے کی قدر میں کمی بھی اپنا کردار دا اکررہی ہے کیونکہ روپیہ 172روپے کی سطح پر اچکا ہے ان عوامل کی وجہ سے سیمنٹ انڈسٹری کی ایندھن کی لاگت میں سو فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ جولائی 2020 میں کوئلے کی سی اینڈ ایف قیمت68 ڈالر فی ٹن تھی جو اب 254ڈالر کی سطح پر اچکی ہے لاگت میں اس اضافہ کا سیمنٹ کی ایک بوری کی لاگت پر اثر 119روپے بن رہا ہے۔
ماہرین کا خدشہ ہے کہ کوئلے کی قیمت میں اضافہ کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا اور فروری 2022 تک کوئلے کی قیمت 300 ڈالر فی ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ سے بھی سیمنٹ کی ترسیل کی لاگت بڑھ رہی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے سے سیمنٹ کی ایک بوری کی قیمت میں 8 سے 10روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق اب سیمنٹ درآمد کرنے والے ممالک کم قیمت پر سیمنٹ ایکسپورٹ کرنے والے متبادل ملکوں کا رخ کررہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سیمنٹ انڈسٹری کو حکومت کی فوری توجہ اور ریلیف کی ضرورت ہے۔
حکومت کو سیمنٹ جیسی بنیادی شے پر ایکسائز ڈیوٹی کے خاتمہ کا وعدہ پورا کرنا ہوگا ساتھ ہی سیمنٹ انڈسٹری کے لیے کوئلے اور ایندھن پر سے امپورٹ ڈیوٹی کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے۔ اس صنعت کو دیگر صنعتوں کے مساوی نرخ پر بجلی اور گیس فراہم کرنا ہوگی اور یہ نرخ کم از کم 3 سال کے لیے منجمد کرنا ہوں گے۔