بلوچستان کے 33اضلاع میں پانچ روزہ انسداد پولیو مہم 30 نومبر سے شروع ہوگی
کوئٹہ : بلوچستان کے 33اضلاع میں پانچ روزہ انسداد پولیو مہم بروز پیر30 نومبر سے شروع ہوگی جس کے لئے تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیںان خیالات کا اظہارایمر جنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈینیٹرراشدرزاق نے اپنے ایک بیان میں کیا انہوں نے کہا کہ پانچ روزہ انسداد پولیو مہم کے دوران پانچ سال تک کی عمر کے25 لاکھ کے قریب بچوں کو پولیو سے بچاکے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس مہم کے دوران10 ہزار 585کے قریب ٹیمیں حصہ لینگی۔جن میں 8ہزار988موبائل ٹیمیں،941فکسڈسائٹ او594ٹرانزٹ پوائنٹس شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں پاکستان اور افغانستان دو ایسے ممالک ہیں جہاں پر پولیو وائرس موجود ہے۔ سال2020 میں پورے ملک میں اب تک82پولیو کیسز رپورٹ ہوئے جس میں سے بلوچستان سے 24کیسز رپورٹ ہوئے ہے۔پولیو کو ہرانے کی جنگ میں والدین، سیاسی حلقوں، علما کرام او ر انتظامیہ کا کردار نہایت اہم ہے۔ ان کی مثبت سوچ، رویوں اور مدد کی بدولت پولیوکی مہم کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی دنیا سمیت پوری دنیا میں اسی ویکسین کے ذریعے پولیو کا خاتمہ یقینی بنایا گیا ہے۔ لہذا بچوں کو ہر مہم میں قطرے پلانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اس سے پولیو وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے۔ آج سے شروع ہونے والی پولیو مہم انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ہم نے عزم کررکھا ہے کہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک پورے صوبے سے پولیو کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اور پولیو کا خاتمہ کرنے کے لیے انسداد پولیو کی ہر مہم میں پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو سے بچا کی ویکسین پلانا لازمی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کوحفاظتی ٹیکہ جات کا کورس مکمل کرانا بھی لازمی ہے۔ تاکہ بچوں میں پولیو سمیت دیگر خطرناک اور جان لیوا بیماریوں سے بچنے کے لیے قوت مدافعت پیدا ہو۔راشدرزاق نے کہا کہ انسداد پولیو مہم کو کامیاب اور ہر بچے کو قطرے پلانے کیلئے کمیونٹی ہیلتھ رضاکاروں کی بھی خدمات لی جارہی ہیں جو ان ہائی رسک علاقوں میں کام کرینگے جہاں بچوں تک رسائی مشکل ہے۔ اس عمل کوبہتر بنانے کیلئے علما کرام، قبائلی رہنماں اور معتبرین کی بھی مدد لی جارہی ہے۔ہماری میڈیا، عوام اور ہر شہری سے اپیل ہے کہ وہ اس مہم کو کامیاب بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ ہمارے بچے مستقل معذوری سے بچ سکیں۔ پولیو لا علاج مرض ہے او ر پولیو ویکسین پلا کر ہی بچوں کو اس سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔