اگلے ماہ پاکستان واپسی کی تیاری کر رہا ہوں، سینیٹر کا حلف اٹھاؤں گا: اسحاق ڈار

0

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اُن کے ڈاکٹرز اگلے چند روز میں اُن کے علاج کے مکمل ہونے کے بارے میں پُرامید ہیں اور ان کی پاکستان واپسی کا ارادہ تقریباً ’کنفرم‘ ہے۔ اسحاق ڈار کے مطابق پاکستان میں ان کے خلاف ایک ہی کیس زیر التوا ہے جو درحقیقت ’عمران نیازی کی جانب سے دائر کیا جانے والا جعلی مقدمہ ہے۔‘

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے بی بی سی کو اگلے ماہ (جولائی) اپنی وطن واپسی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فی الحال پاکستان واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

سنہ 2017 سے لندن میں مقیم سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ’اگلے ماہ (میرا) پاکستان واپسی کا ارادہ تقریباً کنفرم ہے۔‘

اسحاق ڈار نے اس امید کا اظہار کیا کہ اُن کی صحت کو درپیش چند مسائل کا علاج اگلے 10 سے 12 روز میں مکمل ہونے کی توقع ہے کیونکہ اُن کے ڈاکٹرز اگلے چند روز میں اُن کے علاج کے مکمل ہونے کے بارے میں پُرامید ہیں۔

یاد رہے کہ ستمبر 2017 میں پاکستان کی ایک احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے ایک کیس میں اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کی تھی جس کے چند روز بعد اسحاق ڈار پہلے سعودی عرب روانہ ہوئے اور وہاں سے علاج کے لیے برطانیہ چلے گئے۔

ان کی عدم موجودگی میں نومبر 2017 میں احتساب عدالت نے اُن کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے اور انھیں ‘مفرور‘ قرار دے دیا۔ احتساب عدالت نے اُن کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی نیلامی کا بھی حکم دیا تھا۔

بی بی سی نیوز کی جانب سے اُن پر پاکستان میں چلنے والے کیسوں اور اُن کی ضمانت کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اُن پر پاکستان میں ایک ہی کیس ہے جو ’عمران نیازی کی جانب سے دائر کیا جانے والا جعلی مقدمہ ہے۔‘

اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ اُن پر جو جعلی کیس بنایا گیا اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ ’یہ میرے ٹیکس ریٹرن پر بنایا گیا۔‘ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ایسے شخص ہیں جو ٹیکس ریٹرن جمع کرانے میں کبھی تاخیر نہیں کرتے۔

سابق وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ’یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کی جانب سے جب انھیں پاکستان لانے کے لیے انٹر پول سے رابطہ کیا گیا تو جو دستاویزات انٹرپول کو دی گئیں ان میں کوئی جان ہی نہیں تھی، اس لیے انٹر پول نے انھیں (اسحاق ڈار) کلین چٹ دی۔‘

Leave A Reply

Your email address will not be published.