پاک افغان سرحد کی طویل بندش سے چمن کے 50 ہزار تاجر بے روزگار
چمن افغان سرحد کی 18 یوم بندش کے نتیجے میں چمن کے مقامی تاجروں کو یومیہ 10 کروڑ روپے کا کاروبار اور ڈیٹنشن کی مد میں نقصان پہنچ رہاہے۔
چمن چیمبر آف کامرس کے سابق صدر جمال الدین اچکزئی نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ چمن سرحد کی 18 روزہ بندش کے نتیجے میں سرحد پار 1450خالی اور تازہ پھلوں خشک میوہ جات سمیت دیگر اشیاء سے لدے پاکستانی ٹرکوں کی آمد رک گئی ہے۔
انہوں ںے بتایا کہ افغانستان کے لیے پاکستان سے مال سے لدے ٹرکس سرحد کے قریب رکے ہوئے ہیں جبکہ ان گاڑیوں کا عملہ بے یار و مدگار پڑا ہوا ہے جن کے پاس کھانے اور دیگر ضروریات کے لیے رقم بھی ختم ہوگئی ہے، درآمد و برآمدی سرگرمیوں کی معطلی سے ٹریڈ کے روزگار سے منسلک لاکھوں افراد بھی بے روزگار ہوگئے ہیں اور چمن کی
مصروف ترین شاہراہ ویران ہوگئی۔
چمن چیمبر کے ایک اور سابق صدر حاجی جلات خان نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ چمن پر پاک افغان سرحد کو فوری کھولنے کا اعلان کرے تاکہ امن و امان کی ممکنہ طور پر خراب ہونے والے حالات رونما نہ ہوسکیں۔
انہوں نے بتایا کہ چمن میں 1000 ایکڑ اراضی سال 2020ء میں اسپیشل اکنامک زون کے لیے مختص کی گئی تھی ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان بلوچستان میں معاشی لانے کے لیے مجوزہ اکنامک زون کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھنے کا اعلان کریں اور ساتھ چمن چیمبر کی مشاورت سے بارڈر مارکیٹ قائم کرنے کی حکمت عملی وضع کریں۔
چمن چیمبر آف کامرس کے صدر محمد ہاشم نائب صدر نذر جان اچکزئی نے کہا کہ چمن کے باسی گیس بجلی کے علاوہ تعلیم و صحت کے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، وزیراعظم عمران خان کو چاہیئے کہ وہ چمن کے لیے خصوصی ترقیاتی پیکج کا اعلان کریں کیونکہ چمن افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کے لیے گیٹ وے ہے، پاک افغان بارڈر بند ہونے کی وجہ سے پھنسے ہوئے 1400 کینٹینرز پر ڈیٹنشن ودیگر سرچارجز کی مد میں یومیہ 100سے 150ڈالر ادا کرنا پڑرہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک افغان تعلقات میں سیاست اور تجارت کو الگ رکھا جائے۔
چمن چیمبر آف کامرس کے صدر حاجی محمد ہاشم نے کہا ہے کہ چمن ایک اہم تجارتی علاقہ ہے۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ چمن کے لوگوں کے روزگار کا واحد ذریعہ سرحد پر تجارتی نقل وحمل ہے، چمن شہر پر وفاق اگر خصوصی توجہ مرکوز کرے تو اربوں روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت کے آنے کے بعد خطے کی صورتحال تبدیل ہوئی ہے جس سے تجارت کے وسعت کے تناظر میں پاکستان کو موثر حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے بھرپور استفادے کی ضرورت ہے۔