*ڈان ٹاؤن کوئٹہ وزیر اعلیٰ کی جرات مندانہ پیش رفت لیکن عملدرآمد کا امتحان باقی ہے

0 84

*ڈان ٹاؤن کوئٹہ وزیر اعلیٰ کی جرات مندانہ پیش رفت لیکن عملدرآمد کا امتحان باقی ہے*

*تحریر: میر اسلم رند*

وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے کوئٹہ کے وسطی علاقے کو “ڈان ٹاؤن” قرار دینا ایک قابلِ تحسین اور بروقت فیصلہ ہے، جسے اہلِ کوئٹہ ایک بہترین کاوش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق شہر کی کئی مرکزی شاہراہوں کو نو پارکنگ اور نو رہڑی بان زون قرار دیا گیا ہے، جو شہر کی ٹریفک، صفائی اور مجموعی انتظامی صورتحال میں بہتری کی امید دلاتا ہے۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں 15 لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہروں کو “ڈان ٹاؤن” کا درجہ دیا جاتا ہے، اور موجودہ تخمینوں کے مطابق کوئٹہ کی آبادی 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایسے میں اس شہر کو جدید شہری نظم و نسق کے تحت منظم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تاہم اصل مسئلہ اب “اعلان” سے نکل کر “عمل” کی طرف آتا ہے۔ موجودہ انتظامیہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف میٹنگز اور احکامات جاری کرنا کافی نہیں۔ شہر کی موجودہ صورتحال بالخصوص عبدالستار روڈ، لیاقت بازار اور پرنس روڈ بدترین مثالیں ہیں جہاں ٹریپل پارکنگ، غیر قانونی رہڑی بانوں، ہوٹلوں اور دکانداروں کی طرف سے سڑکوں پر قبضہ اور ٹریفک پولیس کی مجرمانہ خاموشی نے شہری زندگی کو اذیت ناک بنا دیا ہے۔

ماضی میں عبدالستار روڈ کو واکنگ اسٹریٹ ڈکلیئر کیا گیا تھا، مگر عدم عملدرآمد اور بدانتظامی نے اسے اب ایک “کچرا بازار” بنا دیا ہے۔ دکانداروں کی شکایات کے مطابق ٹریفک اہلکار خود رہڑی بانوں کو جگہ دیتے ہیں اور شام کو اُن سے “خرچہ” وصول کرتے ہیں ایک کھلی بدعنوانی جو اصلاحات کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

نئے ڈپٹی کمشنر کے لیے اب وقت ہے کہ وہ خود کو صرف فوٹو سیشنز یا رسمی بیانات تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اپنی موجودگی، ایکشن اور نگرانی سے یہ ثابت کریں کہ وہ بلوچستان کے دارالخلافہ کے اصل منتظم ہیں۔ ماضی کے ڈپٹی کمشنر سعد بن اسد کی طرح فوری کارروائی اور براہِ راست مداخلت ضروری ہو گی۔

وزیر اعلیٰ صاحب کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگر بلدیاتی نظام کو مؤثر بنانا ہے تو بیوروکریسی کے ذریعے اختیارات سنبھالنے کی بجائے انہیں مقامی نمائندوں، میئر اور کونسلز کو منتقل کرنا ہوگا۔ ایک بااختیار میئر ہی شہری نظام کو بہتر کر سکتا ہے، ورنہ کاغذی اعلانات اور بیانات صرف وقتی تاثر دے سکتے ہیں، مستقل حل نہیں۔

آخر میں، اگر واقعی حکومت کوئٹہ کو ڈان ٹاؤن بنانا چاہتی ہے، تو اُسے چند افراد کے ذاتی مفادات کی بجائے اجتماعی مفاد کو ترجیح دینی ہو گی۔ یہ وقت سخت فیصلوں اور عملی اقدامات کا ہے بصورت دیگر یہ اعلان بھی صرف ایک اور سیاسی بیان بن کر رہ جائے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.