مسلم لیگ (ن) پی ڈی ایم کے آئندہ اجلاس میں استعفوں کیلئے دباؤ ڈالے گی
اسلام آباد / لاہور : ایک ایسے وقت کہ جب لانگ مارچ صرف 2 ہفتے دور ہے اسمبلیوں سے استعفے دینے کے معاملے پر منقسم اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں کے رہنما اسلام آباد میں آئندہ روز ایک اہم اجلاس کریں گے۔
اپوزیشن میں موجود ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اتحاد میں موجود سخت مؤقف کی حامل جماعتیں مثلاً جمیعت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے فیصلہ کیا ہے کہ اجلاس میں وہ اسمبلیوں سے اکھٹا استعفے دینے کے معاملے پر دوبارہ دباؤ ڈالیں گے۔
دوسری جانب پی ڈی ایم کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اندرونِ خانہ مشاورت اور ذہن سازی کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس تجویز کی مخالفت کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں اطراف اپنے مؤقف کی دلیل کے طور پر حالیہ سینیٹ انتخابات کے نتائج کا ذکر کررہے ہیں۔ جے یو آئی (ف) کا ماننا ہے کہ اکثریت ہونے کے باوجود سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں شکست کے بعد اپوزیشن کےاسمبلیوں سے استعفے آسان ہوگئے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق جے یو آئی (ف) کی قیادت ک نقطہ نظر یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات نے ثابت کردیا ہے کہ قومی اسمبلی اسپیکر یا وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد بے اثر ہوگی۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کا مؤقف یہ ہے کہ اپوزیشن نے ملک میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخاب سے میدان اور سیاسی جگہ حاصل کرلی ہے اور سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے حکمراں اتحاد کو بڑی زک پہنچائی ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کے اپنے پارٹی سینیٹرز کو دیے گئے عشایے میں پارٹی اراکین کی اکثریت نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اسمبلیوں سے استعفیٰ نہیں دینا چاہیے۔ اس ضمن میں جب پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کا ایسا کوئی بیان نہیں دیکھا کہ استعفے قریب آسان ہوگئے ہیں تاہم پی پی پی کا خیال ہے کہ سینیٹ الیکشن کے بعد استعفوں کا امکان مزید کم ہوگیا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ ان کی جماعت پی ڈی ایم کے منگل کو ہونے والے اجلاس میں استعفے دینے کے مؤقف پر زور دے گی۔رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے سابق صدر آصف زرداری سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ لانگ مارچ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جبکہ اپوزیشن کی جماعتوں کے اراکین اسمبلیوں سے اکٹھے مستعفی نہ ہوجائیں۔