بلوچستان کے علاقے آڑنجی میں زلزلہ سے متاثرہ گھرانوں کے حالا ت
کوئٹہ(آن لائن)بلوچستان کے علاقے آڑنجی میں زلزلہ: کچے گھروں میں رہنے والے اس زلزلے سے بے گھر ہوگئے زلزلے سے ہمارے گھر رہنے کے قابل تو نہیں رہے لیکن اس وقت ہمیں سب سے زیادہ مشکل پانی کے حصول کے حوالے سے ہے کیونکہ زلزلے سے پانی کے ذرائع بند ہو گئے ہیں۔یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے محمد اسحاق کا جن کا علاقہ آڑنجی جمعہ کے روز آنے والے زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔انھوں نے بتایا کہ اس زلزلے میں خدا کی مہربانی سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا ہے لیکن زلزلے نے آڑنجی میں بڑی تعداد میں لوگوں کو بے گھر کردیا ہے اور وہ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہوگئے ہیںغیر ملکی خبررساں ادارے(بی بی سی ) کے مطابق علاقے سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی محمد اکبر مینگل نے بتایا کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے پانی کے ذرائع کے علاوہ رابطہ سڑکوں کو فوری طور پر بحال کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے بتایا کہ ان علاقوں میں مجموعی طور پر ڈھائی سو کے لگ بھگ گھروں کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے اور اس لحاظ سے اتنے ہی خاندان متاثر ہوئے ہیں۔زلزلے سے متاثرہ علاقے زامری سے تعلق رکھنے والے محمد اسحاق نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ان کے اور ان کے خاندان کے آٹھ گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زامری کا شمار ان علاقوں میں ہے جہاں گھروں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔زلزلے کے بڑے جھٹکے کے بعد سے آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے جن لوگوں کے گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ وہ بھی آفٹر شاکس کے باعث ان کے گرنے کے خدشے کے پیش نظر ان میں نہیں جاسکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ غربت کی وجہ سے لوگوں کے گھر کچے تھے اور یہی وجہ ہے زلزلے کے باعث پہنچنے والے نقصان سے اب یہ رہنے کے قابل نہیں رہے اور علاقے کے لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔محمد اسحاق نے بتایا کہ قدرتی آفات سے لوگ بہت ساری مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں لیکن زامری کے علاقے میں اس وقت لوگوں کو سب سے زیادہ جس مشکل کا سامنا ہے وہ پانی کا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں لوگوں کا پینے اور دیگر استعمال کے لیے پانی کا انحصار چشموں پر ہے جو کہ زلزلے کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں۔آڑنجی کے علاقے سونارو سے تعلق رکھنے والے محمد حسن نے فون پر بتایا کہ زلزلہ بہت زیادہ شدید تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس سے لوگ محفوظ رہے۔ان کا کہنا تھا کہ زلزلے کے وقت وہ بعض دیگر لوگوں کے ساتھ باہر کھڑے تھے لیکن زلزلے کا جھٹکا اتنا شدید تھا کہ وہ یہ سمجھے کہ وہ زمین پر گر جائیں گے۔انھوں نے بتایا کہ زلزلے سے نہ صرف زامری بلکہ متاثر ہونے والے دیگر علاقوں میں بھی لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے چشمے بند ہونے سے لوگوں کو پانی کے حوالے سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔انھوں نے کہا کہ آڑنجی ایک پہاڑی علاقہ ہے اور اس میں آمد و رفت کے لیے جو راستے ہیں وہ کچے ہیں جو کہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں جس کے باعث متاثرین کو امداد کی فراہمی میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایک گاڑی میں متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو امدادی اشیا پہنچانے کی کوشش کی لیکن راستے بند ہونے سے وہ یہ اشیا نہیں پہنچا سکے۔علاقے سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی محمد اکبر مینگل نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو پانی کے علاوہ آمد و رفت میں مشکلات درپیش ہیں کیونکہ زلزلے سے راستے بھی بند ہوگئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے امدادی اشیا لائی گئی ہیں لیکن راستوں کی بندش کی وجہ سے ان کو پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔انھوں نے کہا کہ تاحال امدادی اشیا کو پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال عمل میں نہیں لایا گیا۔قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل نصیر احمد ناصر نے بتایا کہ علاقے میں فوڈ اور نان فوڈ اشیا کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اے اور ضلعی انتظامیہ کے اہلکاروں نے 90 فیصد متاثرین میں فوڈ اور نان فوڈ اشیا پہنچائی ہیں جبکہ باقی دس فیصد کو بھی جلد فراہم کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ریلیف کی سرگرمیاں مکمل ہونے کے بعد لوگوں کے گھروں کو پہنچنے والے نقصانات کا سروے کیا جائے گا اور سروے کے بعد لوگوں کو گھروں کی تعمیر کے لیے امداد کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔آڑنجی ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کا ایک انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ خضدار شہر سے اندازا ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب میں واقع ہے۔اس علاقے کا شمار ضلع کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ علاقے میں پختہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو آمد و رفت کے حوالے سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔اس علاقے میں لوگوں کے معاش اور روزگار کا انحصار زراعت اور گلہ بانی پر ہے۔