عام انتخابات کے 8 فروری کو انعقاد پر شکوک وشبہات نہیں ہونے چاہئیں، 9 مئی کے بعد ریاستی جبر کاکوئی ثبوت سامنے نہیں آیا، یہ محض الزام ہے، نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا انٹرویو
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد پر شکوک وشبہات نہیں ہونے چاہئیں، 9 مئی کے بعد ریاستی جبر کاکوئی ثبوت سامنے نہیں آیا، یہ محض الزام ہے، محدودمینڈیٹ میں رہتے ہوئے نگران حکومت قومی معیشت بہتر بنانے کے لئے جو ممکن ہے ، وہ کر رہی ہے، باقی کام آئندہ حکومت کرے گی۔ان خیالات کاا ظہار انہوں نے “انڈپینڈنٹ اردو “کودیئے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔
انتخابات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات ہو ں گے، اس حوالےسے قوم کو شکوک و شہبات نہیں ہونے چاہئیں۔وزیراعظم نے اس توقع کااظہارکیاکہ آئندہ عام انتخابات آزادانہ ہوں گے، ہم انتخابات کے انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن کے ساتھ ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ لوگ مختلف سیاسی تجزیے پیش کرتے رہتے ہیں ، کس رہنما کی مقبولیت کتنی ہے اس کا اندازہ عام انتخابات میں ہوجائےگا۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ابھی تک ان پر کوئی قدغن نہیں ہے۔
مستقبل میں کیاصورتحال ہو گی اس بارے وہ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ فی الحال سابق وزیراعظم انتخاب لڑنے کی پوزیشن میں ہیں۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کی مبینہ گمشدگیوں ، منظر عام پر آنے اور سیاست چھوڑنے کے اعلانات کے حوالے سے سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ 9 مئی کو ریاستی اداروں پر حملے ہوئے جس کے بعد کئی لوگ روپوش ہو گئے ، اس روپوشی کے دوران کسی سوچ بچار کے نتیجے میں پی ٹی آئی یا سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا، ان افراد کا ذاتی فیصلہ ہے۔
اس بارے میں وہ کچھ کہنے سے قاصر ہیں تاہم انہوں نے واضح کیاکہ ان کے ساتھ ریاستی جبر کاکوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ، نہ ہی کسی نے ریاستی جبر کی بات کی، یہ محض الزامات کی حد تک ہے۔ وزیراعظم نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کے الزامات کو بھی مسترد کیا۔ وزیراعظم نے نگران حکومت کی قومی معیشت کو بہتر بنانے کی کوششوں پر اطمینان کااظہارکرتےہوئے کہاکہ نگران حکومت کے پاس ایک محدود مینڈیٹ ہے اور اس میں رہتے ہوئے وہ جو کام کرسکیں گے ، کریں گے، باقی کام آئندہ حکومت کے لئے چھوڑ کر جائیں گے۔
پی آئی اے کی نجکاری کے پیچھے مخصوص عناصر کے ہونے سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ سازشی مفروضے ہیں جن کی وجہ سے ملک اس نہج پر پہنچ گیا ہے۔نجکاری کے لئے ماہر مشیر مقرر ہوئے ہیں اور بہترین طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے جس کا 50 سال بعد بھی آڈٹ ہو سکے گا۔ وزیراعظم نے اپنی اس رائے کا اظہارکیاکہ حکومتیں کاروبارنہیں چلاتیں۔غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ان کے وطن واپس بھجوانے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ جو لوگ دستاویزات کے بغیر یہاں مقیم ہیں ہم نے انہیں کہا کہ وہ اپنے وطن واپس جائیں اور ویزہ لے کر جب چاہیں دوبارہ پاکستان آ جائیں، ان پر کوئی مستقل پابندی نہیں لگا رہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مربوط نظام کے تحت ویزہ کی سہولت فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ افغان طالبان سے اس وقت کوئی باضابطہ بات چیت نہیں ہو رہی، ٹی ٹی پی کے حوالے سے ہماری پالیسی واضح ہے، ہم اسے سماج اور ریاست دشمن سمجھتے ہیں اور اپنی ریاست کی بقاء کیلئے آخری حد تک لڑیں گے۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان فوری فائر بندی اور انسانی راہداری کھلوانے کی کوشش کر رہا ہے، اگردنیا، او آئی سی اور دیگر ممالک کے ساتھ کھڑی ہوتی تو اسرائیل پر دبائو بڑھایا جا سکتا تھا۔
وزیراعظم نے بتایا کہ انہوں نے دوبئی میں کوپ۔28 اجلاس کے دوران اردن کے شاہ، امریکی سینیٹر جان کیری، محمد بن زید اور کویت کے ولی عہد کے ساتھ اس معاملہ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اسرائیلی جارحیت جاری رہی تو ہمسایہ علاقوں، خلیج اور دنیا کو اپنی گرفت میں لے سکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے واضح کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے کوئی تجویز کبھی زیر غور نہیں تھی۔