بلوچستان میں نایاب آرا مچھلی پکڑ لی گئی مگر اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے؟
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ماہی گیروں نے ایران کی سمندری سرحد کے قریب سے آرا مچھلی پکڑی ہے۔ یہ مچھلی معدومیت کے خطرے سے دوچار آبی حیات میں شامل ہے اور پاکستان کی سمندری حدود میں شاذ و نادر ہی نظر آتی ہیں۔
آرا مچھلی کی معدوم ہوتی نسل کے پیش نظر عالمی قوانین کے تحت سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں نے سنہ 2016 میں اس کے شکار اور تجارت پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی تاہم اس کو غیر قانونی طور پر اب بھی فروخت کیا جاتا ہے۔
جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈوائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق ایران کے قریب جیونی کے علاقے گتر میں 29 اکتوبر کو آرا مچھلی ماہی گیروں کے جال میں آ گئی جس کو مقامی منڈی میں فروخت کر دیا گیا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تکنیکی مشیر معظم خان کا کہنا ہے کہ یہ علاقے کافی دور دراز ہیں اور پکڑی جانے والی مچھلی کی لمبائی اور وزن کتنا تھا اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم دستیاب تصاویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ پکڑی جانے والی مچھلی کا وزن 70 سے 80 کلو گرام تو ہو گا۔
اس سے قبل 2018 میں سندھ کے سمندری علاقے کاجھر کریک سے تقریباً 15 فٹ لمبی آرا مچھلی ملی تھی۔ ماہی گیروں کا دعویٰ تھا کہ انھیں یہ مردہ حالت میں ملی تھی۔ تقریباً 1320 کلو وزنی مچھلی کو 90 ہزار میں فروخت کیا گیا تھا۔
پاکستان میں آرا مچھلی سندھ اور بلوچستان کے سمندر میں پائی جاتی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مشیر معظم خان کے مطابق یہ ساحلی علاقوں کی مچھلی ہے جو بہت کھلے سمندر میں نہیں ملتی۔ انڈس ڈیلٹا کے ساتھ بلوچستان کے علاقے سونمیانی، کلمت، پسنی، جیونی اور گوادر اس کی افزائش نسل اور خوراک کے علاقے ہیں۔
’اس کا جو چھوٹا بچہ ہوتا ہے اس کا سائز دو سے ڈھائی فٹ ہوتا ہے جبکہ بالغ مچھلی کو اگر سر سمیت ناپا جائے تو اس کی لمبائی 13 سے 14 فٹ تک بھی ہو سکتی ہے جس میں پانچ سے چھ فٹ تک اس کا چونچ نما آرا ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس کی تین اقسام پائی جاتی تھیں۔‘
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق سب سے بڑی آرا مچھلی کی لمبائی سات میٹر یعنی 23 فٹ یا اس سے زیادہ بھی ہوتی ہے، یہ انڈوں کی افزائش جسم کے اندر ہی کرتی ہیں ان کی بلوغت کی عمر 10 سال ہوتی ہے جبکہ مجموعی عمر 25 سے 30 سالوں پر محیط ہوتی ہے۔
آرا مچھلی کے دانتوں کی باؤنڈری
پاکستان میں 70 کی دہائی میں آرا مچھلی وافر مقدار میں پائی جاتی تھی جس کو برآمد بھی کیا جاتا تھا۔
معظم خان بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھی رہے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ جوانی کا کچھ حصہ انھوں نے پسنی میں گزارا ہے جہاں روزانہ کم از کم بھی ایک سے دو آرا مچھلیاں نظر آ جاتی تھیں۔
’ان دنوں میں یہ مچھلی اتنی تعداد میں ملتی تھیں کہ جیونی میں ایک ایک ہزار گز کے کم از کم دو ایسے گھر بنے ہوئے جن کی باؤنڈری ان کے دانتوں سے بنائی گئی تھی اور اس پر جال ڈال دیا گیا تھا، اس کے یہ دانت یا آری تقریبا پانچ سے چھ فٹ کا ہوتا ہے دوسرے علاقوں میں بھی چند گھروں میں ایسی باونڈریاں تھیں۔‘
نائیلون کا جال آرا مچھلی کا دشمن
انڈس ڈیلٹا سے لے کر ایران کی سمندری حدود تک ماہی گیر نائیلون کا جال استعمال کرتے ہیں۔ معظم خان کے مطابق اس کو مشکا کا جال کہتے ہیں جو زیر سمندر مچھلی پکڑنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
’آرا مچھلی کا المیہ یہ ہے کہ اس کے سر کے ساتھ ایک بڑا آرا بنا ہوا ہے اور جال میں کوئی دوسری مچھلی پھنسے نہ پھنسے یہ ضرور پھنس جاتی ہے۔ جب کاٹن کے جال ہوتے تھے تو یہ مچھلی کاٹن کی ڈوریاں کاٹ کر اس میں سے نکل جاتی تھی لیکن اب جو نائیلوں کا جال استعمال ہوتا ہے وہ مضبوطی اور پائیداری کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے جس کو آرا مچھلی کاٹ نہیں سکتی اور اس کی معدومیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہی جال ہے۔‘
نیشنل جیو گرافک کی رپورٹ کے مطابق آرا مچھلی کم از کم 20 ممالک میں مقامی طور پر ناپید ہو چکی ہے اور مزید 43 ممالک میں اس کی کم از کم ایک نسل ختم ہو چکی ہے، جس میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی شامل ہے، جہاں 1961 کے بعد سے بڑے دانت والی مچھلی نہیں دیکھی گئی۔
سائنس ایڈوانسز میگزین کے مطابق جن ممالک میں آرا مچھلی اب ناپید ہو چکی ہے ان میں چین، عراق، ہیٹی، جاپان، تیمور لیسٹی، ایل سلواڈور، تائیوان، جبوتی اور برونائی شامل ہیں جبکہ امریکہ اور آسٹریلیا ان کے لیے آخری مضبوط گڑھ دکھائی دیتے ہیں جہاں آرا مچھلی کو بہتر طور پر محفوظ کیا جاتا ہے۔
آرا مچھلی کا استعمال
معظم خان کے مطابق پاکستان میں آرا مچھلی کا کوئی خصوصی استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کا گوشت دیگر شارک مچھلیوں کی طرح خاموشی سے فروخت کر دیا جاتا ہے۔
جیمز کُک یونیورسٹی آسٹریلیا میں سمندری حیاتیات کے ماہر کولن سمفینڈوفر نے نیشنل جیو گرافک کو بتایا تھا کہ نہ صرف ان کے پنکھ تجارتی منڈی میں سب سے زیادہ قیمتی ہیں، بلکہ انفرادی دانت جو ان کے روسٹرم کو جڑے ہوئے ہیں، وسطی اور جنوبی امریکہ میں مرغوں کی لڑائی کے لیے سینکڑوں ڈالر میں فروخت ہوتے ہیں۔
آرا مچھلی کے پنکھوں اور دانتوں کو بطور انعام، خوراک یا دوا کے طور پر اور مرغوں کی لڑائی میں حوصلہ افزائی کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔