کیا واقعی آپریشن کے ذریعے بلوچستان کے حالات کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے؟
*کیا واقعی آپریشن کے ذریعے بلوچستان کے حالات کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے؟*
*زرا جرآت کے ساتھ*
*تحریر: میر اسلم رند*
میں کافی عرصے سے مسلسل اس بات پر زور دیتا آ رہا ہوں کہ بلوچستان کا مسئلہ صرف اور صرف سیاسی مذاکرات سے حل کیا جا سکتا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت بضد ہے کہ امن و امان کے قیام کے لیے صرف طاقت اور آپریشن ہی واحد حل ہے۔ یہ سوچ نہ صرف غلط ہے بلکہ ماضی میں بار بار اس کا ناکامی سے سامنا ہو چکا ہے۔
آج پاکستان کے بڑے مین اسٹریم میڈیا پر بیٹھے تجزیہ نگار، تھنک ٹینک، دانشور، پاک فوج کے سنجیدہ پالیسی ساز، معزز ججز اور نامور صحافی بھی اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچستان جیسے حساس خطے کے مسائل کا دیرپا اور حقیقی حل صرف سیاسی بصیرت اور مکالمے میں پوشیدہ ہے۔
بلوچستان میں اب مزید ڈمی قیادت یا فارم 47 کے تحت آئے نمائندوں کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اگر واقعی میں دیرپا امن چاہیے تو اس کا آغاز گورنر بلوچستان کی زیر نگرانی شفاف گورننس سے کیا جائے۔ کرپشن کا مکمل خاتمہ، احساسِ تحفظ کی فراہمی اور گراس روٹ لیول پر عوام سے رابطہ قائم کیا جائے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ دہشت گردی اور سیاسی جدوجہد میں واضح فرق رکھا جائے۔ جو لوگ ہتھیار اٹھا کر معصوم شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، لیکن وہ لوگ جو سیاسی اختلاف رائے رکھتے ہیں یا کسی تحریر، تقریر یا سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے اپنا اظہار کرتے ہیں، ان کے ساتھ بات چیت اور رہنمائی کے ذریعے معاملہ سلجھایا جائے۔
سننے میں آیا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایک تھنک ٹینک گروپ قائم کیا گیا ہے، مگر میرے مشاہدے اور معلومات کے مطابق ان میں نہ “تھنک” ہے نہ “ٹینک”۔ اگر ہم نے بار بار انہی غلطیوں کو دہرایا جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے، تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ دنیا بھر میں انسجنسی پر تحقیق کرنے والے ماہرین بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طاقت کا بے جا استعمال حالات کو مزید بگاڑتا ہے، سنوارنے کا ذریعہ نہیں بنتا۔
لہٰذا ضروری ہے کہ بلوچستان میں پہلے زمینی حقائق کو تسلیم کیا جائے، عوام کے تحفظات اور شکایات کو سنا جائے، اور پھر ایک جامع قومی مکالمے کی راہ ہموار کی جائے۔ ریاست کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والا ہر نوجوان دہشت گرد نہیں ہوتا۔ کچھ افراد محض جذبات میں آ کر ردعمل دیتے ہیں، جنہیں محبت، مکالمے اور رہنمائی کے ذریعے دوبارہ قومی دھارے میں لایا جا سکتا ہے شرط صرف نیت کی سچائی اور اخلاص ہے۔
بلوچ نوجوان جب اپنے ساتھ ناانصافی، محرومی اور بے توجہی دیکھتے ہیں تو فطری طور پر ان کے جذبات ابھر آتے ہیں۔ میں خود بھی ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے کبھی کبھار جب انڈین فلموں میں پاکستان کے خلاف بیانیہ دیکھتا ہوں تو غصے سے ٹی وی بند کر دیتا ہوں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کا حالیہ بیان، جس میں انہوں نے کہا کہ آئندہ تمام اسکولوں میں قومی ترانہ گایا جائے گا اور پاکستان کا جھنڈا لہرایا جائے گا، سن کر حیرت ہوئی۔ جناب وزیر اعلیٰ! اگر آپ نے بلوچستان کے اسکولوں کا دورہ کیا ہوتا تو شاید یہ بیان دینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بلوچستان کے ہر اسکول میں صبح قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے اور پاکستانی پرچم لہراتا ہے۔ آپ کو مشورہ دینے والے وہی لوگ ہیں جو آپ سے مخلص نہیں اور زمینی حقیقت سے ناواقف ہیں۔
*بلوچستان کا مسئلہ بندوق سے نہیں، بلکہ دلوں کو جوڑنے، بات چیت، احترام اور انصاف سے حل ہو گا۔ عوام کو گلے لگانے، ان کی بات سننے، اور ان کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے، نہ کہ انہیں مزید دور دھکیلنے کی۔ اگر اخلاص نیت ہو، تو اللہ کی مدد ضرور شاملِ حال ہوتی ہے*