فوجی تنصیبات پر حملے کے ذمہ داروں کو نتائج بھگتنا ہوں گے، وزیراعظم
:نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کو سزا ضرور ملنی چاہیے، 9 مئی کے واقعات میں ملوث عناصر سے قانون کے مطابق نمٹا جارہاہے، دہشتگردی میں ملوث عناصر کی بیخ کنی ریاست کی ذمہ داری ہے،
افغانستان کی جانب سے دہشتگرد عناصر کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ، ہماری سکیورٹی فورسز روزانہ کی بنیاد پر دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہیں، مذاکرات صرف ہتھیار ڈالنے والوں سے ممکن ہیں ، بندوق کی نوک پر کوئی ریاست کو مجبور نہیں کر سکتا ، ریاست کے حق میں کچھ مشکل فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں ، ایسا تاثردرست نہیں کہ غیر ریاستی عناصر سے نمٹا نہیں جاسکتا ،
ریاست اپنی پالیسی وقت کے ساتھ طے کرتی ہے ، شناخت کے غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے والوں سے بھی قانون کے مطابق نمٹا جائے گا ، غزہ کی پٹی کو اسرائیل نے جہنم بنا دیا ہے، او آئی سی کے اجلاس میں پاکستان نے اپنا بھر پور نقطہ نظر پیش کیا ، جنگ بندی اور امداد کی فوری ترسیل پر تمام مسلمان ممالک متفق ہیں،چیئر مین پی ٹی آئی کو جیل میں زہر دینے کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے۔
نجی ٹی وی پروگرام کے ساتھ انٹرویو میں نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کہا کہ حال ہی میں سعودی عرب میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے خصوصی اجلاس کے دوران تمام مسلم رہنمااس بات پر متفق ہوئے کہ وہ بین الاقوامی طاقتوں کو جنگ بندی کو یقینی بنانے اور غزہ اور مغربی کنارے میں انسانی راہداری کھولنے پر مجبور کریں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر پیشرفت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ نگران حکومت کے تین ماہ کے دوران اہم کام ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین اپنے عظیم الشان بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے لیے جا رہا ہے جس میں پاکستان ایک اہم حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین چاہتا ہے کہ اس سلسلے میں مزید ہم آہنگی اور تعاون ہونا چاہیے اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔ انوار الحق کاکڑ نے ملک میں 9 مئی کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر لوگ کسی ایسے ادارے پر حملہ کریں جو ملک کو انارکی سے بچانے کا ذمہ دار ہے تو ایسے افراد کے خلاف قانون کے مطابق عدالتوں میں مقدمہ چلایا جانا چاہیئے۔
شہریوں کے فوجی ٹرائل کو ختم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت کی اپیل کے بارے میں، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ بالکل جائز ہے کہ اگر کسی نے کسی فوجی تنصیب پر حملہ کیا تو اس کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت نے سابق وزیراعظم کو جیل میں نہیں ڈالا۔ انہوں نے پی ٹی آئی چیئرمین کو جیل میں زہر دینے سے متعلق بیان کو انتہائی غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بے بنیاد الزامات پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور حامیوں کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو ظاہر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ جیل میں پی ٹی آئی رہنما کو مطلوبہ سہولیات اور تحفظ فراہم کرے۔ عمران خان بالکل محفوظ اور صحت مند ہیں۔ وزیر اعظم نے اس تاثر کو بھی مستردکردیا کہ کچھ جماعتوں سے بے جا نرمی برتی جا رہی ہے اور کچھ کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں ملک بھر میں اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔
نگران حکومت کی طرف سے ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت کی جا رہی ہے کےتاثر کو رد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں عام طور پر اپنے ووٹروں کو مختلف طریقوں سے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں اس طرح کے الزامات اور ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ انتخابات شفاف طریقے سے ہونے جارہے ہیں تاہم اگر کوئی انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھاتا ہے تو وہ عدالتوں سمیت متعلقہ چینلز سے رجوع کرسکتا ہے۔
افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغان سرزمین سے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہرپاکستانی شہری کی جان ان کے لیے قیمتی ہے اور ریاست بھی آئینی طور پر اپنے شہریوں کے تحفظ کی پابند ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے سرحد پار سے دہشت گردی کی بہت سی کارروائیاں ہوئی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی عمل کیوں شروع نہیں کر رہا، وزیراعظم نے کہا کہ اگر ٹی ٹی پی واقعی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر جانا چاہتی ہے تو اسے پہلے ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ تمام افغان، بلا تفریق رنگ و نسل پاکستان کے لیے یکساں اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ دونوں قوموں کے درمیان صدیوں پرانے ثقافتی اور مذہبی تعلقات ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ریاست ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے لیے زیرو ٹالرینس کا مظاہرہ کرے گی۔ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صرف غیر قانونی افغانوں کو ہی ملک چھوڑنے کے لیے کہا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے بغیر قانونی دستاویزات کے پاکستان میں مقیم افغانوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک واپس جائیں اور قانونی دستاویزات کے ساتھ واپس آئیں تاکہ وہ پاکستان میں قانونی اور باعزت طریقے سے رہ سکیں۔ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ حال ہی میں سعودی عرب میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے خصوصی اجلاس کے دوران تمام مسلم رہنمااس بات پر متفق ہوئے کہ وہ بین الاقوامی طاقتوں کو جنگ بندی کو یقینی بنانے اور غزہ اور مغربی کنارے میں انسانی راہداری کھولنے پر مجبور کریں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر پیشرفت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ نگران حکومت کے تین ماہ کے دوران خاطر خوا کام ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین اپنے عظیم الشان بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے دوسرے مرحلے کے لیے جا رہا ہے جس میں پاکستان ایک اہم حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین چاہتا ہے کہ اس سلسلے میں مزید ہم آہنگی اور تعاون ہونا چاہیے اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔ پاکستان میں چینی شہریوں کی سکیورٹی کے حوالے سے وزیراعظم نے ملک میں ہر قسم کے تشدد کو روکنے کے لیے حکومت کے پختہ عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردی سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔