سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ومحصولات کا اجلاس

0 10

:سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ومحصولات کوبتایاگیاہے کہ کہ31دسمبرتک بینکوں نے مقررہ مدت تک ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو(اے ڈی آر) کی حد برقرار نہ رکھنے کے باعث 70 ارب روپے اضافی ٹیکس ادا کیے ہیں۔ کمیٹی نے ویزا کارڈ کو بین الاقوامی سطح پر بھی جاری اور استعمال کرنے کی تجویزدی ہے۔سینیٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ومحصولات کا اجلاس بدھ کویہاں چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں ٹیکس اصلاحات، منی بلز اور سرحدی تجارت میں درپیش مشکلات سمیت اہم مالیاتی و تجارتی امور کاجائزہ لیاگیا۔ سلیم مانڈوی والا نے مالیاتی بلز کے حوالے سے جاری بحث کا ذکر کیا اور کہا کہ اب تک لائے گئے قوانین کو مالیاتی بلز کہا گیا ہے، یہ ایک قانونی ترمیم کا معاملہ ہے تاکہ نان فائلرز کے خلاف اقدامات کیے جا سکیں۔

انہوں نے کہا حکومت نے ہمیں بتایا ہے کہ سپیکر نے اسے مالیاتی بل قرار دیا ہے، لیکن جب میں نے قومی اسمبلی کے سپیکر سے بات کی تو انہوں نے کسی بھی بل کو مالیاتی بل قرار دینے کی تردید کی۔ کمیٹی نے مالیاتی بلز کے حوالہ سے سینیٹ کے اختیارات پر بھی بحث کی۔ سلیم مانڈوی والا نے وضاحت کی کہ سینیٹ ایسے بلز پر غور تو کر سکتی ہے مگر ووٹنگ کا اختیار نہیں رکھتی۔ سینیٹر شبلی فراز نے بھی اس رائے کی حمایت کی اورکہا کہ معاملے کی وضاحت کے لیے وزارت قانون سے رائے لی جانی چاہیے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو بتایا کہ31دسمبرتک بینکوں نے مقررہ مدت تک ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو(اے ڈی آر) کی حد برقرار نہ رکھنے کے باعث 70 ارب روپے اضافی ٹیکس ادا کیے ہیں۔ سینیٹر شبلی فراز نے نشاندہی کی کہ جنوری 2025 میں 440 ارب روپے بینکوں کو واپس کیے گئے۔ وزیر خزانہ محمداورنگزیب نے کہا ہم حکومتی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بینک منافع پر ٹیکس میں اضافے کے لیے پرعزم ہیں۔ بینکوں کو حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔وزیر خزانہ نے پاک-

ایران سرحد پر ٹرکوں کی بڑی تعداد میں پھنسنے سے متعلق سوال پر بتایا کہ 600 ٹرک پھنسے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے تجارتی سامان کی ترسیل میں تاخیر اور بلوچستان میں بیروزگاری پیدا ہوئی ہے۔ سینیٹر منظور کاکڑ نے کہا کہ اس صورتحال کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں حکومت جلد از جلد اس مسئلے کاحل نکالیں۔اجلاس میں پاک-ایران تجارت کے حوالے س 2023 میں شروع ہونے والی بارٹر ٹریڈ کے معاملات کا جائزہ لیا گیا۔ کسٹمز حکام نے نشاندہی کی کہ صرف ایرانی ساختہ مصنوعات کو بارٹر معاہدے کے تحت اجازت ہے لیکن تاجر ایران میں لگژری اشیاء درآمد کر کے پاکستان برآمد کر رہے ہیں۔ انوشہ رحمان نے کہا اس تجارت کو کنٹرول کرنے کیلئے ایس آر او بہت پیچیدہ ہے اور اسے مزید عملی بنانے کی ضرورت ہے۔تاجروں کے نمائندوں نے کسٹمز کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کیا ۔ ایک تاجر نے کہا کہ پہلے روزانہ چالیس ٹرک برآمدات کے ساتھ ایران جاتے تھے، لیکن اب رکاوٹوں کے باعث تجارت شدید متاثر ہو رہی ہے۔

چیئرمین مانڈوی والا نے اس مسئلے کو تسلیم کرتے ہوئے ایس آر او کو آسان بنانے اور تجارتی طریقہ کار کو واضح کرنے پر زور دیا۔اجلاس میں سٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر عنایت حسین نے ترسیلات زر کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دی۔انہوں نے بتایا کہ 2020 میں پاکستان کی ترسیلات 23 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2022 میں 31 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جاری مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر 35 ارب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔ انہوں نے کہاکہ مراعات اورسہولیات کی فراہمی کی وجہ سے ے ترسیلات زر میں اضافہ ہواہے۔ اجلاس میں سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی کابھی جائزہ لیاگیا۔ کمیٹی نے جنوری 2025 میں ریکارڈ نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن پر اطمینان کا اظہار کیا۔اجلاس میں وزارت خزانہ و محصولات کی جانب سے مالی سال 2024-25 کے بجٹ کیلئے تخصیصات اور ان کے استعمال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں ویزا اور ماسٹر کارڈ خدمات کے استعمال پر ڈالروں کے زیادہ اخراجات اور ان کے بھاری منافع پر بھی غور کیا گیا۔

کمیٹی نے تجویز دی کہ ویزا کارڈ کو بین الاقوامی سطح پر بھی جاری اور استعمال کیا جانا چاہیے۔ کمیٹی نے مالیاتی اصلاحات کے موثر نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے مالیاتی اور کسٹمز حکام کے مابین مزید تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.