چین میں اے آئی کے استعمال سے مر جانے والوں کی آوازیں اور چہرے کلون کروانے کا رواج
چین میں لوگ میں تیزی سے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مر جانے والے پیاروں کی آوازوں اور چہروں کو کلون کروانے کا رواج بڑھ رہا ہے جس سے وہ انہیں دوبارہ اپنے سامنے محسوس کر سکتے ہیں ۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں لوگ میں تیزی سے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال کرتے ہوئے اپنے خاندان کے ان ممبران کو اے آئی کی مدد سے “دوبارہ ورچوئل زندہ ‘‘ کروا رہے ہیں جو اصل میں اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ اگرچہ نئی ٹیکنالوجی کے اطلاق کے بارے میں تحفظات ہیں تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اپنے پیاروں کے کھو جانے سے صدمہ کے شکار لوگوں کے لیے انتہائی ضروری سکون فراہم کر سکتی ہے۔
ایسا ہی ایک چینی شخص سیکو ووہ ہے جو اے آئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اپنے مرحوم نوجوان بیٹے کی ریکارڈنگ چلاتا ہے جس میں مرحوم کے ورچوئل امیج کو ایسی باتیں کہتے ہوئے سنا جاتا ہے جو اس نے زندہ رہتے ہوئے کبھی نہیں بولی تھیں۔ ریکارڈنگ اے آئی سے چلتی ہے۔اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سوگوار والد نے بھی اس ٹیکنالوجی کے استعمال پر اپنے جذبات کا اظہار کیا تاکہ وہ اپنے فوت شدہ بیٹے کا ساتھ زندگی بھر پا سکے ۔
ووہ نےبتایا کہ اس نے اپنے بیٹے کی تصاویر، ویڈیوز اور آڈیوز کو اکٹھا کیا اور ہزاروں ڈالر کے عوض اے آئی فرموں کی خدمات حاصل کیں جنہوں نےاس کے بیٹے کے چہرے اور آواز کو کلون کیا اس طرح وہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات کا ایک وسیع ڈیٹا بیس بنانے میں کامیاب رہا۔چین کی فرم سپر برین اے آئی کے بانی ژانگ زیوی نے اے ایف پی کو بتایا کہ کمپنی کسی شخص کا بنیادی ’اوتار ‘بنانے کے لیے 10,000 سے 20,000 یوآن ( 1,400- 2,800 ڈالر ) وصول کرتی ہے ،اوتار بنانے میں تقریباً 20 دن لگتے ہیں ،یہ ٹیکنالوجی ایک نئی قسم کی انسانیت کو جنم دے رہی ہے تاہم اس ٹیکنالوجی کے “نفسیاتی اور اخلاقی مضمرات کو سمجھنے” کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف باتھ کے سینٹر فار ڈیتھ اینڈ سوسائٹی کے وزٹنگ ریسرچ فیلو ٹل مورس نے کہا ہے کہ یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایسا بھوت بوٹس اس شخصیت کے کتنے ‘وفادار’ ہیں جس کی انہیں نقل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اگر وہ ایسے کام کرتے ہیں جو اس شخص کی یاد کو ‘آلودہ’ کر دیتے ہیں جس کی وہ نمائندگی کرنے والے ہیں تو پھر کیا ہو گا ۔ سپر برین نے بھی اسے “دو دھاری تلوار” قرار دی ہے ۔