سائنسدانوں نے بھارت اور چین میں نئی وباؤں کے خطرے سے خبردار کردیا
سائنسدانوں نے گلوبل وارمنگ کے باعث تیزی سے گلیشیئرز پگھلنے کے نتیجے میں بھارت اور چین کو لاحق خطرات سے خبردار کردیا، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تبت کے گلیشیئرزپرجرثوموں کی 968 نامعلوم اقسام دریافت کی گئی ہیں جو وبائی امراض پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر خطرناک بیکٹیریا کا اخراج چین اور بھارت کو متاثر کرسکتا ہے اور ان جرثوموں میں نئی وبائی بیماریاں پیدا کرنے کی بھی صلاحیت ہے۔
جرنل نیچر بایو ٹیکنالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق سال 2010 سے 2016 کے درمیان برف کے نمونے 21 مقامی گلیشیئرز سے لیے گئے جن کا چائنیز اکیڈمی آف سائنسز نے مطالعہ کیا۔
مجموعی طور پر جرثوموں کی 968 اقسام کی شناخت کی گئی جن میں سے کچھ سائنس کے علم میں تھیں تاہم 98 فیصد اقسام نامعلوم ہیں۔
سائنسدانوں کو تشویش ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں گلیشیئرز پگھلنے سے خطرناک جرثومے خارج ہو سکتے ہیں اور تبت کے گلیشیئر سے آنے والا پانی وبائی امراض کو جنم دے سکتا ہے کیونکہ یہ چین اور بھارت میں بالترتیب دریائے زرد، یانگسی اور گنگا کو پانی فراہم کرتا ہے۔
گزشتہ سال کے سیٹلائٹ تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً تمام گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے دنیا بھر میں خطرناک پیتھوجینز کے اخراج کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
تبتی سطح مرتفع ایشیا کا ایک بلند و بالا خطہ ہے جو جنوب میں ہمالیہ کے پہاڑوں اور شمال میں صحرائے تاکلامکان کے درمیان واقع ہے۔
گزشتہ سال بھی سائنسدانوں نے تبت کے قدیم گلیشیئر میں پھنسے ہوئے وائرسز کا کھوج لگایا تھا جن میں سے کچھ 15 ہزار سال سے زیادہ پرانے تھے۔