جنگلی حیات کا شکار: بلوچستان کے ضلع کیچ میں بڑی تعداد میں جنگلی جانوروں اور پرندوں کے غیرقانونی شکار

0

غیر قانونی شکار کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی جس میں شکار کرنے والے افراد بڑے فخریہ انداز میں مارے جانے والے جانوروں اور پرندوں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

شکار کیے جانے والے جانوروں میں ہرن،جنگلی خرگوش اور تلور شامل تھے۔ مارے جانے والے تلوروں میں ایک ایسا تلور بھی شامل تھا جس کی دونوں ٹانگوں پر ٹیگ بھی لگے ہوئے تھے۔

شکار کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کیچ کی انتظامیہ نے کاروائی کرتے ہوئے شکار کرنے والوں میں سے ایک کو گرفتار کر لیا ہے۔

ضلع گوادر کے سینئر صحافی بہرام بلوچ نے بتایا کہ جس علاقے میں غیرقانونی شکار کیا گیا وہ شادی کور میں پیدراک کا علاقہ ہے۔

شکار کی جو ویڈیو اور تصاویر وائرل ہوئی ہیں ان میں چھ کے قریب لوگ نظر آرہے ہیں، اس میں ایک خیمہ نظر آرہا ہے جس کے قریب شکار کیے جانے والے جانوروں اور پرندوں کو رکھا گیا ہے۔

بلوچی زبان میں بات کرتے ہوئے لوگ ان جانوروں کو مارنے پر بہت خوش ہیں اور وہ اس کا تذکرہ فخریہ انداز میں کر رہے ہیں۔

ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ’بابا آج 2022 کی پہلی تاریخ ہے۔ یہ تلور ہیں۔ ایک تلور ہم نے کھا لیا ہے ۔چار ہرن ہیں جبکہ خرگوش زیادہ ہیں۔‘

ایک اور شخص نے شکار کیے ہوئے خرگوشوں کو گِن کر بتاتا یے کہ اُن کی تعداد 20 ہے۔

ویڈیو میں ایک شخص کہتا ہے کہ ’کہا جاتا ہے کہ تلور اڑتے ہیں تو ان کو گولی نہیں لگتی ہے۔ دیکھیں یہ پڑے ہوئے ہیں۔‘

دوسرا شخص کہتا ہے کہ ’ان کو ہم نے اڑتے ہوئے مارا ہے۔‘

ایک ویڈیو میں ایک تلور کی دونوں ٹانگوں پر ٹیگ لگے نظر آتے ہیں جن میں سے ایک پر باقاعدہ نمبر بھی لگے ہوئے ہیں۔

ان میں سے ایک شخص یہ کہتا ہے کہ یہ شاید عربوں کا ہے۔

ان ویڈیوز اور تصاویر کی وائرل ہونے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر لوگوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

ایک صارف ندیم فیروزی نے لکھا کہ ’بلوچستان تربت کے بااثر افراد کی جانب سے شادی کور ندی کے علاقے میں ہرن ،خرگوش اور تلور جیسے نایاب جانوروں اور پرندوں کا بیدردی سے شکار۔ ویڈیو میں شکاریوں کے چہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ کیا ہے ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے گا؟‘

بلوچستان کے وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات میر ظہور بلیدی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ جنگلی حیات کی نسل کشی پر تحقیقات اور قانونی کارروائی کی جائے گی۔

محکمہ جنگلات و جنگلی حیات حکومت بلوچستان کے کنزرویٹر نیازکاکڑ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ویڈیو میں جو ہرن نظر آتے ہیں وہ عام ہرن ہیں جو کہ بلوچستان کے گرم علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں کیچ کے علاوہ سبی، جھل مگسی ، خضدار اور لسبیلہ وغیرہ شامل ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ بعض علاقوں میں ان ہرنوں کی نسل کو بچانے اور ان کی نسل کو بڑھانے کے لیے حکومت نے ایک منصوبہ بھی شروع کر رکھا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ویڈیوز میں خرگوش بھی نظر آ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عام ہرنوں کی طرح یہ جنگلی خرگوش بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ویڈیو میں جو پرندے نظرآتے ہیں وہ تلور ہیں جو کہ ایک نقل مکانی کرنے والا پرندہ ہے۔

نیاز کاکڑ نے بتایا کہ تلور روس سے اس موسم میں گرم علاقوں کا رخ کرتا ہے جن میں بلوچستان کے مختلف علاقے بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک مارے جانے والے اس تلور کی بات ہے جس کے ٹانگوں پر ٹیگ لگے ہوئے ہیں وہ شاید ان تلوروں میں سے ہو جن کی فارمنگ عرب شیوخ نے شروع کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ تلور کی نسل کو بڑھانے کے لیے عربوں نے مراکو میں ایک فارم قائم کیا ہے۔

انھوں نے بتایا ٹیگ لگا تلور فارمی تلوروں میں سے ہو سکتا ہے جن کو شاید عربوں نے اس روٹ پر چھوڑا ہو۔

ملزمان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے؟

محکمہ جنگلات کے کنزرویٹر نے نیاز کاکڑ نے بتایا کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر کیچ نے اس کا نوٹس لیا تھا اور غیرقانونی شکار میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ان شکاریوں میں سے عاقب نامی شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جو کہ اسلحے کا مقامی ڈیلر بتایا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ گرفتار ملزم کی اسلحے کی دکان کو سیل کرنے کے علاوہ اُن کا لائسنس بھی منسوخ کیا گیا ہے۔

درایں اثنا وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے تربت میں غیر قانونی شکار اور جنگلات کی کٹائی کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر مکران سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

ایک بیان میں وزیراعلیٰ نے غیر قانونی شکار کی سختی سے روک تھام اور جنگلی حیات کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے غیر قانونی شکار میں ملوث عناصر کے خلاف وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت کاروائی کی ہدایت کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ کسی کو بھی اپنی تفریح اور مالی فائدے کے لیے ماحولیات کو داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.