ہمیں 20 سالہ افغان جنگ اور فوجی انخلا سے بہت کچھ سیکھنا ہے ، امریکا
واشنگٹن : امریکا کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا ہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی سے آخری بار بات 14 اگست کی رات کو ہوئی تھی اور اس روز بھی انھوں نے آخری سانس تک لڑنے کا عہد کیا تھا لیکن طالبان کے کابل آتے ہی وہ چپ کے سے فرار ہوگئے۔
ڈان ڈاٹ کام کے مطابق امریکی ٹیلی وژن سی ایس کے ٹاک شو ’’فیس دی نیشن‘‘ میں وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ ذاتی طور پر طالبان کے کابل میں داخل ہونے سے ایک رات قبل تک سابق افغان صدر اشرف غنی سے رابطے میں تھے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ 14 اگست کی رات بھی اشرف غنی کو ٹیلی فونک گفتگو میں انتقال اقتدار پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ طالبان کے ساتھ تمام قومیتوں پر مشتمل حکومت کی راہ موجود ہے لیکن انھوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ آخری سانس تک لڑیں گے۔
وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے بقول اگلے ہی صبح جیسے ہی طالبان کابل میں داخل ہوئے اشرف غنی کسی کو بتائے بغیر خاموشی سے اہل خانہ سمیت فرار ہوگئے اور دو روز تک اپنی جائے پناہ تک نہیں بتائی تھی۔
اس سوال کے جواب میں کیا بطور وزیر خارجہ انھوں نے ہر وہ کام کیا جو وہ کر سکتے تھے تو انھوں نے کہا کہ محکمہ خارجہ نہ صرف پچھلے 2 برسوں میں امریکا طالبان معاہدے کے بعد کیے گئے اقدامات بلکہ دو دہائی کی جنگ کے دوران کے اقدامات کا بھی جائزہ لے رہا ہے کیوں ہمیں ان تجربات سے سیکھنا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے صدر جوبائیڈن کے فوجی انخلا کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سب سے طویل جنگ کا خاتمہ ایک اور امریکی نسل کو افغانستان میں لڑنے اور مرنے سے بچانا تھا اور ایک دن سب ہمارے اس فیصلے کی تعریف کریں گے۔