پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ استحکام اور باہمی اعتماد کے راستے پر آگے بڑھنا ہوگا
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
پاکستان میں بعض مسلح کارروائیاں نہ صرف خطے کے امن و استحکام کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ یہ امارتِ اسلامی افغانستان کے اپنے مفادات اور افغان قیادت کے اعلانات سے بھی مطابقت نہیں رکھتیں۔ افغان وزراء کے مطابق اس نوع کی سرگرمیاں امیرالمومنین ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کے واضح احکامات کے منافی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کو فوراً ختم کیا جائے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد اور امن کو تقویت ملے۔
اگر امارتِ اسلامی افغانستان قطر میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں مصروف ہے تو یہ مذاکراتی فضا اس بات کی متقاضی ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر کسی بھی مسلح کارروائی سے گریز کیا جائے۔ ایسے اقدامات نہ صرف مذاکراتی عمل کو متاثر کرتے ہیں بلکہ دوطرفہ تعلقات پر بھی منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخ کے ایک نازک مگر اہم موڑ پر ہیں۔ ماضی میں ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ افغانستان سوویت یونین کو پاکستان کی مدد کے بغیر شکست نہیں دے سکتا تھا۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغان عوام کی مزاحمت اور قربانیاں اس کامیابی میں بنیادی کردار رکھتی ہیں۔
دوسری جانب اگر روس افغانستان پر مکمل قبضہ کر لیتا تو پاکستان کے دفاع کے لیے صورتِ حال کہیں زیادہ مشکل ہوتی۔ اس لحاظ سے دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے تعاون سے نہ صرف روسی تسلط کو روکا بلکہ خطے کو بڑے تصادم سے بھی بچایا۔
پاکستان کو تسلیم کرنا چاہیے کہ افغان سرزمین پر ہونے والے بعض واقعات نے پاکستان کے دفاعی مفادات کو تقویت دی، جبکہ افغانستان کو بھی یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ پاکستان کے تعاون سے انہیں روسی افواج کے خلاف فیصلہ کن کامیابی ملی۔
دونوں برادر ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماضی کی تلخیوں سے آگے بڑھ کر باہمی احترام، امن، اور مشترکہ ترقی کے نئے باب کا آغاز کریں تاکہ پورا خطہ استحکام اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
Comments are closed.