بھارتی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے مودی حکومت کے اقدام کی توثیق کردی
بھارتی سپریم کورٹ نے بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے اس سلسلے میں بی جے پی کی ہندوتوا حکومت کے اقدامات کو برقراررکھا ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، بھارت سے الحاق کے بعد کشمیرکی داخلی خود مختاری کا عنصر برقرار نہیں رہااور دفعہ370ایک عارضی شق تھی۔عدالت نے جموں وکشمیرکی اسمبلی کے انتخابات 30ستمبر 2024 تک کرانے کا حکم دیا۔فیصلے میں کہاگیا کہ بھارتی صدر کے پاس اختیارات ہیں، دفعہ370جموں و کشمیر کے انضمام کو منجمد نہیں کرتا،
جموں و کشمیر اسمبلی کی تشکیل کا مقصد مستقل باڈی بنانا نہیں تھا۔درخواست گزاروں نے بھارتی سپریم کورٹ سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور دفعہ370بحال کرنے کی استدعا کی تھی۔بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت پر مشتمل بنچ نے20 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کے دوران 16 دنوں تک متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد 5ستمبر 2023کو اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
درخواستوں میں جموں و کشمیر کو جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔فیصلہ سنانے کے موقع پر بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں وکشمیرمیں پابندیاں مزید سخت کی گئی ہیں جبکہ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق محبوبہ مفتی اور عمرعبداللہ کوان کے گھروں میں نظربند کردیا گیا ہے۔
کشمیری اخبار کشمیر عظمیٰ کی رپورٹ کے مطابق سماعت کے دوران بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے سوال اٹھایا گیا کہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کی سفارش کون کر سکتا ہے، جبکہ کوئی قانون ساز اسمبلی، جس کی منظوری ایسا اقدا م اٹھانے سے پہلے ضروری ہے ، وہاں موجود نہیں۔سپریم کورٹ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ 1957 میں جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی معیاد ختم ہونے کے بعد ایک شق ( آرٹیکل 370) جس کا خاص طور پر آئین میں عارضی طور پر زکر کیا گیا ہے ،
وہ مستقل کیسے ہو سکتی ہے۔ قبل ازیں آرٹیکل 370 کی منسوخی کی مخالفت میں دئے گئے دلائل میں کہا گیا تھا کہ1957 میں جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی معیاد ختم ہونے کے بعد آرٹیکل 370 نے مستقل حیثیت اختیار کر لی ہے۔بھارتی اخبار سیاست کے مطابق سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں کے ان دلائل کو بھی مسترد کر دیا کہ صدر راج کے دوران مرکز کی طرف سے کوئی ناقابل واپسی کارروائی نہیں کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کو جموں و کشمیر میں صدارتی اعلان کی صداقت پر فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ درخواست گزاروں نے اسے چیلنج نہیں کیا ۔
بھارتی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے بنچ کو بتایا گیا کہ جموں و کشمیر وہ واحد ریاست نہیں ہے جس کا بھارت سے الحاق ،الحاق کے آلات کے ذریعے ہوا تھا، بلکہ کئی دیگر شاہی ریاستیں بھی 1947 میں آزادی کے بعد بھارت میں شرائط کے ساتھ شامل ہوئیں، اور ان کے انضمام کے بعد، خودمختاری ہندوستان کی خودمختاری میں ضم ہوگئی۔مرکزی حکومت نے بنچ کو بتایا کہ 1947 میں آزادی کے وقت، 565 ریاستوں میں سے اکثریت گجرات میں تھی اور بہت سی ریاستوں میں ٹیکس، زمین کے حصول اور دیگر مسائل سے متعلق شرائط تھیں۔
مرکز نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ جموں و کشمیر کی بطور یونین ٹیریٹری کی حیثیت صرف عارضی ہے اور اسے ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔ تاہم، لداخ ایک یونین ٹیریٹری رہے گا۔مرکزی حکومت نے 5؍6اگست 2019 کو آئین کی دفعہ 370میں ترمیم کی تھی، جس میں پہلے ریاست جموں و کشمیرکو حاصل خصوصی درجہ ختم کردیا گیا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ میں سینئر وکلاء ایڈوکیٹ کپل سبل، راجیو دھون، گوپال سبرامنیم، دشینت دوے، ظفر شاہ، گوپال سنکرارائنن ودیگر نے درخواست گزاروں کی طرف سے دلائل پیش کیے۔سجاد لون کی قیادت میں جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کی نمائندگی راجیو دھون نے کی۔کپل سبل نے نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ محمد اکبر لون کی طرف سے دلائل پیش کئے۔ مرکزی حکومت کا موقف اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے پیش کیا۔ان کے علاوہ متعدد مداخلت کاروں کی نمائندگی کرنے والے کئی وکلاء نے بھی اس معاملے میں عدالت کے روبرو دلائل دیئے۔