برما کے جادوگر پیر جو علاج بھی کرتے ہیں اور دھاتوں کو ’سونے میں بھی بدلتے ہیں

0

میں نہ صرف تمہارا مستقبل دیکھ سکتا ہوں بلکہ ہر اس شخص کا مستقبل دیکھ سکتا ہوں جو مجھ سے ملاقات کرتا ہے۔‘

جب یوآنگ بانگ نے یہ بات مسکراتے ہوئے کہی تو رات کی تاریکی میں بھی اُن کے عقب میں شویڈاگون پگوڈا کا گنبد اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا ’لیکن اس سے پہلے کہ میں تمہیں اگلی بات بتاؤں، تمہیں بدھ مت کی تعلیمات پر عمل کرنا ہو گا۔‘

میں اس مقام پر برما کے سب سے مقدس بدھ مقامات پر ’ویکزا‘ یا نام نہاد جادوگروں کی تلاش میں آئی تھی جو مجسم روحانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

جدید دور کے ان جادوگروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بدھ مت کی تعلیمات اور مراقبے کے ساتھ ساتھ منتر اور کیمیاگری کے ذریعے اپنی طاقتیں حاصل کرتے ہیں اور مقامی لوگ مصیبتوں کے علاج سے لے کر پیشہ وارانہ مشکلات تک، ہر چیز کے لیے ان جیسی شخصیات کی تلاش میں رہتے ہیں۔

میں سوچ رہی تھی کہ جوں جوں برما دنیا کے سامنے کُھل رہا ہے، کیا اس قسم کی روایات مستقبل میں زندہ رہ سکتی ہیں؟

اس کا جواب ینگون کے رکن اسمبلی نے نام نہ بتانے کی شرط پر یہ دیا کہ ’میرے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل ہے اس قسم کے لوگ آج بھی پائے جاتے ہیں لیکن میں نے انھیں ایسے کام کرتے بہرحال دیکھا ہے جن کی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔‘

میرا ٹیکسی ڈرائیور اس حوالے سے زیادہ کھل کے بات کر رہا تھا کیونکہ وہ ان لوگوں کو مانتا ہے اور اعتقاد رکھتا ہے۔

’کیوں نہیں، میں جادوگروں پر یقین رکھتا ہوں۔ تین بار ایسا ہو چکا ہے کہ جب میں پوجا کر رہا تھا تو ایسی ہی شخصیات میری آنکھوں کے سامنے آ گئیں اور انھوں نے بڑے اہم فیصلے کرنے میں میری مدد کی۔‘

حقیقت یہ ہے کہ ’ویکزا‘ برمی معاشرے میں اتنے اہم ہیں کہ پورے ملک میں ایسے کئی خصوصی مزار (ویکزا تزانگ) موجود ہیں جہاں ان جادوگروں یا ویکزا کی پرستش کی جاتی ہے۔ ویکزا بننے کے خواشمند بدھ بھکشو ان خانقاہوں پر آ کر مراقبہ کرتے ہیں اور بہت سے لوگ جادوئی مدد کے لیے بھی انہی مزاروں اور خانقاہوں کا رخ کرتے ہیں۔

یوآنگ بانگ سے میری ملاقات شویڈاگون کی خانقاہ پر ہوئی تھی۔ اس خانقاہ کا محل وقوع اتنا اہم اور عمارت اتنی بڑی ہے کہ یہ ویکزاؤں کا ایک بڑا مرکز بن چکا ہے۔

یوآنگ بانگ نے مجھے بتایا کہ ان کی عمر 93 برس ہے اور 37 برس سے جادوگر بننے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔

’جادوگر بننے کے لیے آپ کو بدھا (گوتم بدھ) کے اخلاقی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک خاص قسم کا مراقبہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسا کرنے سے ویکزاؤں کے ہاتھ میں بہت طاقت آ جاتی ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ تو ہوا میں اُڑ بھی لیتے ہیں۔‘

اگرچہ یہ بات ناقابلِ یقین دکھائی دیتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ برما میں بدھ مت اور جادو ٹونے کے درمیان ایک خاص تعلق کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

ہانگ کانگ سٹی یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر اور ویکزاؤں کے ماہر ڈاکٹر تھامس پیٹن کے مطابق اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہیں کہ ویکزاؤں کی جڑیں 19ویں اور 20ویں صدی کے سامراجی دور سے ملتی ہیں، جب روایتی پیر اور بظاہر روحانی شخصیات مقامی لوگوں کا علاج اپنے روایتی انداز میں کرنے لگے۔

اور پھر سنہ 1985 میں برما میں بادشاہت کے خاتمے پر بھکشوؤں، راہبوں، بودا (جادوئی طاقت رکھنے والے بزرگوں) اور روایتی حکیموں وغیرہ کے درمیان طاقت کی کشمکش شروع ہو گئی اور ہر کوئی لوگوں میں اپنا اپنا اثر و رسوخ اور دبدبہ قائم کرنے لگا۔

اس چیز نے برطانوی راج کے نمائندوں کو پریشان کر دیا۔ اسی لیے برطانوی افواج کو ان گروہوں کے خلاف لڑنا پڑا جو اپنی جادوئی طاقت کے بھروسے بدھ مت کے تحفظ اور انگریزوں کو برما سے بے دخل کرنے کی مہم چلا رہے تھے۔

یہ واضح نہیں تھا کہ یہ مافوق الفطرت طاقتیں کیا ہیں تاہم، یو آنگ بانگ نے اپنی زبردست صلاحیتوں کی کوئی تفصیلات پیش کرنے سے انکار کر دیا لیکن انھوں نے یہ انکشاف ضرور کیا کہ وہ پورے برما میں آتے جاتے ہیں اور لوگ ان کے کرشموں کے بدلے میں انھیں کھانا دیتے ہیں۔

ایک ایسا شخص جو مکمل ویکزا کے درجے پرپہنچ جاتا ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ اب لافانی ہو گیا۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے جسم سے آزاد ہو کر یا لوگوں کی نظروں سے غائب ہو کر اس زمین کو چھوڑ دیتا ہے، کائنات میں ایک ایسے صوفیانہ دائرے میں جا بستا ہے جہاں سے تمام جادوگر عام انسانوں پر نظر رکھتے ہیں۔

اس کی وضاحت سب سے بڑی خانقاہ کے ایک اور جادوگر، یو ٹِن نیانگ نے کی، جن کا دعوی تھا کہ وہ بھی 90 برس کے ہیں لیکن وہ 60 سے زیادہ کے نہیں لگتے تھے۔

’میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ میرے پاس کیا کچھ کرنے کی طاقت ہے لیکن میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ میرا ہدف کیا ہے۔ بطورِ جادوگر ہم نجات کی تلاش میں ہیں تاہم ہم مر نہیں سکتے کیونکہ ہم مستقبل کے بُدھا کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پھر بھی ہمیں مرنے کی کوشش کرنی ہے تاکہ ہم اس دنیا کو چھوڑ کر آسمانی دائرے میں داخل ہو سکیں۔‘

یوٹِن نیانگ شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ ہیں، جن کی تصویریں انھوں نے مجھے دکھائیں۔ بدھ بھکشوؤں کے برعکس جادوگر مرد بھی ہو سکتے ہیں اور عورتیں بھی، اور وہ بچے بھی پیدا کر سکتے ہیں تاہم جو افراد ویکزا بننے کے راستے پر نکلتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ جنسی تعلق سے مکمل اجتناب برتیں اور راہبانہ زندگی اختیار کر لیں۔

’لوگ میرے پاس صحت یا ذاتی مسائل کے حل کے لیے آتے ہیں۔ میں اپنی طاقت استعمال کر کے ان کو اس شیطانی سائے سے نجات دلانے کی کوشش کرتا ہوں جس کی وجہ سے وہ درد میں مبتلا ہوتے ہیں اور یوں میں ان کی توانائیوں کو بدلنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘

یوٹن نیانگ کے بارے میں خاص طور پر مشہور ہے کہ جادو کے ذریعے اور جِن نکالنے کے ماہر ہیں اور انھیں ایسے لوگ بلاتے ہیں جو دوسری جدید ادویات وغیرہ سے ٹھیک نہیں ہوتے۔ عام طور پر یوٹن نیانگ اور دیگر ویکزا مریض پر ایک جادوئی دائرہ کھینچ دیتے ہیں۔

سب سے زیادہ پراسرار جادوگر وہ ہوتے ہیں جو جڑی بوٹیاں اور کیمیائی مادے استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زندگیاں مختلف دھاتوں کو سونے میں بدلنے میں صرف کر دیتے ہیں یا دھاتوں میں ایسی جادوئی چیز شامل کر دیتے ہیں جس سے وہ دھات اپنے مالک سے گفتگو کرنے لگتی ہے۔

اس قسم کے کیمیاگر جادوگر بہت کم ہی ہوتے ہیں اور ان سے ملنا خاصا مشکل کام ہے۔ ایک فرانسیسی ماہر ( جس نے اپنا نام خفیہ رکھنے کو کہا) نے مجھے بتایا کہ دو عشرے پہلے کیسے وہ اس وقت ششدر رہ گئیں تھیں جب ان کا ٹکراؤ ایک ایسے ہی کیمیاگر سے ہوا تھا۔

’اس نے کوئی جادو پڑھ کر پھونکا جس کے بعد اس جادوگر کے ہاتھ میں موجود مائع پارے نے اپنی شکل بدلی اور ایک گیند کی صورت میں میرے ہاتھوں میں آ گرا۔ جب میں پیرس واپس آئی تو وہ پارا مجھ سے کھو گیا اور پھر اگلے چار برس تک میں اس جادوگر سے نہیں ملی لیکن اس نے مجھے بالکل درست بتا دیا کہ وہ گیند مجھ سے کس آڈیٹوریم میں گم گیا تھا۔ اس کے بعد اُس نے جادو کے ذریعے میرے بیگ میں پارے کا ایک نیا گیند پیدا کر دیا حالانکہ میرے بیگ پر تالا لگا ہوا تھا۔‘

فرانسیسی خاتون نے مجھے وہ چمکدار گیند دکھاتے ہوئے کہا کہ ’میں آج تک اس چیز کو نہیں سمجھ سکی کہ یہ ہوا کیسے۔ حتیٰ کہ برما میں بھی لوگ بعض اوقات میری کہانی پر شک کرتے ہیں۔‘

یہ بات سچ ہے کہ برما میں تعلیم یافتہ لوگ ویکزاؤں پر یقین نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ اس قسم کے جادوگروں کو صرف غریب لوگ ہی مانتے ہیں۔ ویکزا حقیقی برما کا حصہ نہیں۔

لیکن اس کے باوجود جادوگر پیروں کو گذشتہ عرصے میں زیادہ مقبولیت ملی اور لگتا ہے کہ برما میں یہ لوگ زیادہ طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔

سنہ 2013 تک برما میں بدھ مت کے جادوگروں کے بارے میں خبروں کو ملک کی فوج کی طرف سے شدید سینسر شپ کا سامنا تھا لیکن جوں جوں برما دنیا کے سامنے کھلتا جا رہا ہے، ویکزاؤں کے بارے میں کتابوں کی بھرمار ہوتی جا رہی ہے اور ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے اکثر خبریں آتی رہتی ہیں۔

پیٹن کے بقول اب برما کے فلمی اداکاروں اور موسیقاروں میں بھی یہ رجحان زور پکڑ رہا ہے۔

اور یہ برما تک ہی محدود نہیں رہا کیونکہ ’چین سے بہت سی امیر کاروباری شخصیات بھی اب برما آتی ہیں اور اپنے کاروبار میں مدد کے لیے ان لوگوں کے پاس جاتی ہیں۔ یہ لوگ ان ویکزاؤں کو اپنے لیے خوش قسمتی کی زندہ علامت سمجھتے ہیں۔‘

جیسا کہ پیٹن کہتے ہیں کہ ان جادوگر پیروں کی ایک اپنی کشش ہے کیونکہ ویکزا کی روایت لوگوں کو زندگی میں وہ کچھ دینے کا وعدہ کرتی ہے جو ان کے حصے میں نہیں آیا ہوتا۔

اور کون ہے جو یہ سب کچھ پانے کے لیے جادو کا سہارا نہیں لے گا؟

Leave A Reply

Your email address will not be published.